Warning: file_get_contents(): https:// wrapper is disabled in the server configuration by allow_url_fopen=0 in /home/jupu01/public_html/new.jumhooripublications.com/wp-content/plugins/bwdtwpx-3D-woocommerce-product-layout/includes/admin-notice.php on line 54
Warning: file_get_contents(https://app.bwdplugins.com/way-of-api/get-api.php?show_key=true): Failed to open stream: no suitable wrapper could be found in /home/jupu01/public_html/new.jumhooripublications.com/wp-content/plugins/bwdtwpx-3D-woocommerce-product-layout/includes/admin-notice.php on line 54
Warning: file_get_contents(): https:// wrapper is disabled in the server configuration by allow_url_fopen=0 in /home/jupu01/public_html/new.jumhooripublications.com/wp-content/plugins/bwdtwpx-3D-woocommerce-product-layout/includes/admin-notice.php on line 61
Warning: file_get_contents(https://app.bwdplugins.com/way-of-api/get-api.php?show_audience=true): Failed to open stream: no suitable wrapper could be found in /home/jupu01/public_html/new.jumhooripublications.com/wp-content/plugins/bwdtwpx-3D-woocommerce-product-layout/includes/admin-notice.php on line 61 Literature - Jumhoori Publications
تاریخ کا سفر 1200ء کے قریب پہنچا تو ایشیا کے مشرق سے ایک بڑی طاقت نے سر اُٹھانا شروع کر دیا۔ یورپ کے تاتاریوں کی طرح، ایشیا ئی قبائل میں منگولوں کے نام سے موسوم ان قبیلوں کے سب سے واضح اوصاف میں، اپنے اطراف ہر سمت پھیلائو، جہاں سے گزرنا وہاں حملے اور جارحیّت اور کثرت سے خون خرابہ شامل ہیں۔
الوداع ارضِ جنت وطن: احمت اُمیت کے ناول کا اردو ترجمہ ہے۔ ناول کا مرکزی کردار اتحادوترقی کمیٹی کا سرگرم رکن شہسوار ہے۔تنگ نظر قوم پرستوں کی یہ تنظیم اتحادوترقی کمیٹی جس کا قیام 1889ء میں عمل میں آیا،
دل مُن: سندھ کی تاریخ کے تناظر میں لکھا گیا یعقوب یاور کا ناول ہے۔ یعقوب یاور کا نام دنیائے ادب میں کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ ان کا شمار ایسے ادیبوں میں کیا جاتا ہے جو محض اپنے مستقبل کو سنوارنے کی غرض سے نہیں بلکہ اپنے ذوق وشوق کی تکمیل اور اردو ادب کی خدمت سے سرشار ہوکر ادبی کاموں میں مصروف رہتے ہیں۔
زیرنظر کتاب ”دھرتی جائے، کیوں پرائے“ اعظم معراج کی تصنیف ہے جس میں انہوں نے اس تلخ حقیقت کے بیان میں سچی کہانیاں رقم کی ہیں کہ دھرتی کے بیٹے اپنے معاشرے اور دھرتی سے بیگانہ کیوں ہو رہے ہیں؟
”دید وادید“ ممتاز پاکستانی ادیبہ الطاف فاطمہ کے لازوال افسانوں کا مجموعہ ہے۔ جیتے جاگتے محسوس ہونے والے کرداروں اور دل گداز کہانیوں کی خالق الطاف فاطمہ کا تخیل بھرپور، نثرمسحور کن، کردار نگاری جان دار، منظرکشی اور جزیات نگاری طلسماتی حد تک دلآویز ہے جس باعث ان کی تحریریں پڑھنے والے کو اپنی گرفت میں لیے رکھتی ہیں۔
دربدر: ترک ادیبہ چلر الہان کے افسانوں کا مجموعہ ہے۔وہ ایک مترجم، مدیرہ، مضمون نگار اور افسانہ نگار ہیں۔ انہیں اپنی تحریروں پر ترکی میں یشار نبی ایوارڈ مل چکا ہے۔ ”دربدر “ ان کے افسانوی مجموعے کا اردو ترجمہ ہے۔
ظفر محمود سابق پاکستانی بیوروکریٹ ہیں۔’’دائروں کے درمیان‘‘ان کے دس افسانوں کا مجموعہ ہے۔ یہ سب افسانے کسی نہ کسی حد تک حقیقی کرداروں اور واقعات پر مبنی ہیں جو مصنف کے مشاہدے اور تجربے سے گزرے۔ ان کی زندگی کا بیشتر حصہ اعلیٰ سول سرونٹ کی حیثیت سے مختلف تعیناتیوں میں گزرا.
عدالت آعولو، ترکی کی مایہ ناز ادیبہ ہیں جن کی تحریروں کو نہ صرف قارئین بلکہ ادبی ناقدین بھی سراہتے ہیں۔ 1984ء میں پہلی بار شائع ہونے والا ان کا زیر نظر ناول ’’کرفیو‘‘،اردو ترجمہ ہے، 1980ء کے ترکی کی عکاسی کرتا ہے. جب 12ستمبر کے مارشل لاء سے چند مہینے قبل، ملک پر خوف و دہشت کے سائے اور غیر یقینی کی فضا طاری تھی، جنہیں کرفیو کے استعارے میں بیان کیا گیا ہے۔
رفعت ناہید سجاد،افسانہ نگار، ناول نگار اور ماہر تعلیم ہیں۔ اُن کا زیرنظر ناول ”چراغ ِآخر ِشب“ پاکستان کی تاریخ کے مد و جزر سے متعلق ہے۔یہ پاکستان کی کہانی ہے ، جس کے ماضی کی رُوداد لکھی جا چکی ، جس کے حال کے پاس اب کھونے کے لیے کچھ نہیں بچا اور جس کے مستقبل کے لیے نئے چراغ روشن کرنے ہوں گے۔
الطاف فاطمہ ریڈیو پاکستان کے لیے تواتر سےبراڈکاسٹنگ کرتی رہی ہیں۔ ”چلتا مسافر“ مشرقی پاکستان کے المیے کے پسِ منظر میں لکھا گیا ناول ہے۔ بہاری مسئلے اور سقوطِ ڈھاکہ کو اس سے پہلے نہ ہی بعد میں کسی نے اس تناظر میں سپردِ قلم کیا۔
ایلف شفق ، ترکی کی مقبولِ عام ادیبہ ہیں۔ وہ اپنی کہانیوں میں پیش کردہ مشرق اور مغرب کے خوبصورت امتزاج کے باعث دنیا بھرمیں معروف ہیں۔ ناقدین کے مطابق، وہ ہم عصر ترکی ادب اور عالمی ادب میں ایک جداگانہ آواز ہیں۔ ان کی تحریروں کا موضوع خواتین، حقوقِ نسواں، اقلیتیں، تارکین وطن اور ان کے مسائل، متنوع ثقافتیں، ثقافتی سیاست، تاریخ، فلسفہ اور خصوصاً صوفی ازم رہے ہیں۔
سلجوق التون، ترکی کے معروف اور مقبول انعام یافتہ ادیب ہےں۔”بازنطینی سلطان“ ان کے ناول کا اردو ترجمہ ہے۔ اس ناول کی کہانی پُرتجسس، سنسنی خیز اور اسرار سے بھرپورہے جس میں تاریخ اور تخیل ساتھ ساتھ رواں ہیں۔ ناول مصنف کی جانب سے بازنطینی تہذیب کو ایک خراجِ عقیدت ہے۔
بوئے گُل، یشار کمال کے معروف و مقبول ناول کا اردو ترجمہ ہے۔ ادانہ، ترکی میں پیدا ہونے والے یشار کمال نے بین الاقوامی شہرت حاصل کی، وہ کئی ناولوںاور مضامین کے مصنف ہیں اور شاعری بھی کرتے رہے۔ انہوں نے پانچ سال کی عمر میں اپنے کُردوالد کو مسجد میں نماز ادا کرتے ہوئے اپنی آنکھوں کے سامنے قتل ہوتے دیکھا۔
بقائے دوام: چیک ری پبلک سے تعلق رکھنے والے ادیب میلان کنڈیرا کے شہرہ آفاق ناول کا اردو ترجمہ ہے۔ ناول کو سات حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے اورکہانی تین کرداروں ایگنس، اس کی بہن لارا اور اس کے شوہر پال کے گرد گھومتی ہے۔
یہ طویل کہانی’’ بیرک 72 کے قیدی‘‘ اورحان کمال کا تحریر کردہ ایک ڈرامہ ہے ، جو دوسری جنگ عظیم کے دوران ایک قید خانے کا منظر پیش کرتا ہے۔ ان چھوٹی موٹی چوریاں کرنے والے شکستہ حال، غربت زدہ اور گندے لوگوںکے درمیان رِزکا کپتان احمت بھی ہے، ایک قاتل کا قاتل ۔ ایک قیدی جو اپنے باپ کے قتل کا بدلہ لینے کے جرم میں دس برس سے سزا کاٹ رہا ہے۔
بیکار کے مہ وسال‘‘ اورحان کمال کے سوانحی ناول کا اردو ترجمہ ہے۔ اورحان کمال کی تحریریں معاشی جدوجہد کرنے والے لوگوں کی زندگیوں کی تصویر کشی کرتی ہیں۔ تاہم، اپنی کہانیوں میں امید پرستی اور حوصلے کا ایک پہلو بھی دکھائی دیتا ہے۔
باپ کا گھر: اورحان کمال کے سوانحی ناول کا اردو ترجمہ ہے۔1949ء میں شائع ہونے والا یہ ناول ’’باپ کا گھر‘‘ ترکی کے معروف ادیب اورحان کمال کی خود نوشت ہے۔ وہ اسے ایک عام غیر اہم شخص کی داستانِ حیات قرار دیتے ہیں۔ یہ ان کا پہلا ناول ہے ، جس نے ترک ادب میں نئے رحجانات متعین کیے۔
عمر زلفو لیوانلی, ترکی کے مایہ ناز ادیب، شاعر، موسیقار اور فلم ڈائریکٹر ہیں۔ وہ ترک سیاست میں بھی سرگرمی سے شامل رہے اور 2002ء کے ترکی انتخابات میں وہ جمہوریت خلق پارٹی کی جانب سے استنبول سے گرینڈ نیشنل اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ اپنے سیاسی نظریات کے باعث انہیں متعدد بار قیدوبند کی مشکلات اور جلاوطنی بھی اختیار کرنی پڑی۔
بابِ ارغوان، اویابیدر کے ناول کا اردو ترجمہ ہے جس پر انہیں جودت قدرت ایوارڈ سے نوازا جا چکا ہے۔ اویا بیدار کے لطیف اسلوب سے تشکیل پانے والا زیر نظر ناول ’’بابِ ارغوان‘‘ ایک منفرد ادبی کارنامہ ہے۔
زیر ِ نظر ناول ”بابِ اسرار“ ان کے ناول کا اردو ترجمہ ہے جو ترکی زبان میں 2008ء میں بابِ اسرار کے نام سے شائع ہوا۔ اس سنسنی خیزناول کا موضوع مولانا جلال الدین رومی اور شمس تبریز کا باہمی صوفی تعلق ہے۔