Showing 51–75 of 87 resultsSorted by latest
جہد مسلسل‘‘ بابائے سوشلزم شیخ محمد رشید کی خود نوشت ہے، جسے کسانوں، محنت کشوں اور سیاسی کارکنوں کی جدوجہد کے تناظر میں تحریر کیا گیا ہے۔ انہوں نے شعور کی آنکھ کھولتے ہی استحصالی رویے کے خلاف جدوجہد کو اپنا شعار بنا لیا اور کم وبیش نصف صدی تک ان کی یہ جدوجہد مسلسل جاری رہی۔
پاک و ہند کی تحریکِ آزادی کو انڈین نیشنل کانگرس اور آل انڈیا مسلم لیگ تک محدود سمجھا جاتا ہے۔ لیکن اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ آزادی کی جدوجہد تنہا ان دو جماعتوں کی محتاج نہیں تھی۔ درجنوں سامراج دشمن تحریکیں، ابھریں، پروان چڑھیں اور انہوں نے آزادی کے لیے میدان ہموار کیا۔
جو میں نے دیکھا: کے مصنف راؤ رشید اگرچہ پاکستان پولیس کے افسر تھے لیکن ان کی انفرادی خوبی یہ ہے کہ انہوں نے اپنی زندگی کو اپنے اصولوں اور ضابطوں کے مطابق بسر کیا اور ترقی کی وہ راہیں کھولیں جو پروفیشنل پولیس کے بیشتر خواص پر بھی بند رہتی ہیں۔
سندھ، پاکستان کی سیاسی جدوجہد میں ہمیشہ ہی نمایاں رہا۔ آزادی اور انقلابی تحریکوں کا مرکز۔ ہاریوں کی جدوجہد سے لے کر حروں کی جدوجہد تک۔ جب جنرل ضیا کا مارشل لاء اپنے ظلم وجبر کے حوالے سے اپنے عروج پر تھا، اس جبر کے خلاف سندھ سے ایک بلند آواز جام ساقی کی شکل میں گونجی۔
’’ جالب جالب ‘‘ کے مصنف مجاہد بریلوی اس سے قبل پاکستان کے معروف انقلابی شاعر حبیب جالب پر متعدد کتابیں تحریر کر چکے ہیں۔زیر نظر کتاب بھی جالب کے نظریات، شاعری اور شخصیت سے متعلق ہے۔
زیر نظر کتاب ’’اسرائیل میں یہودی بنیاد پرستی‘‘ دو یہودی مصنفین کی تحقیقی اور معلوماتی کتاب ہے۔ جناب اسرائیل شحاک اور نارٹن میزونسکی کی مشترکہ کاوش ہے۔ اسرائیل شحاک پولینڈ میں اپنی والدہ کے ہمراہ ایک نازی کیمپ صرف اس بنیاد پر قید کردئیے گئے کہ وہ یہودی تھے، اس وقت اُن کی عمر دس سال تھی۔
فیصلہ عوام کریں کہ الیکشن صاف و شفاف تھے یا ان کے حق پر ڈاکا ڈالا گیا۔ انتخابات کے حوالے سے یہ پہلی کتاب ہے جس میں جمہوری دَور کے علاوہ فوجی دَور میں ہونے والے تمام انتخابات کا ذکر کیا گیا اور اس الیکشن کا جس میں اتنے بڑے پیمانے پر دھاندلی کی گئی کہ اس دھاندلی کو اہل صحافت اور عوامی حلقوں نے ’’جھرلو‘‘ کا نام دیا۔
زیر نظر کتاب ”عمران خان کے بکھرتے خواب“ ایک ایسے موضوع (عمران خان) پر اُن کی تحریروں کا مجموعہ ہے جو پاکستان میں نوجوانوں کی امیدوں کا ستارہ بن کر ابھرا۔ پاکستان کے ایک بڑے طبقے نے اُن کے پاکستان کو بدل دینے کے دعووں پر یقین کرکے انہیں اپنا نجات دہندہ لیڈر اور پھر حکمران چن لیا۔
زیر نظر کتاب میں مصنف نے اس نظریاتی بحث کی تاریخ بیان کی ہے جو ترکی میں عہد ملوکیت کے فقہ کے علم برداروں اورجدید علوم سے بہرہ ور روشن خیال مسلمانوں کے درمیان دو سو سال تک جاری رہی۔ اٹھارویں صدی کے اوائل میں خلافت عثمانیہ روایت پرستی اور پسماندگی کا شکار ہو چکی تھی۔
یہ کتاب ہیکٹر بولتھو کی جناح ؛ کری ایٹر ٓف پاکستان کا اردو ترجمہ ہے۔ پاکستان کے بانی قائداعظم محمد علی جناح ؒ کی شخصیت اور سیاسی کارناموں پر جتنی کتابیں اب تک شائع ہوئی ہیں، ان میں ہیکٹربولتھو کی یہ تصنیف سب سے زیادہ جامع اور دلچسپ ہے۔ ہمارے لیے قائداعظمؒ صرف بابائے قوم ہی نہیں تھے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ قائداعظمؒ اور پاکستان ہم معنی اور مترادف الفاظ ہیں اور تاریخ آزادی اور تحریک پاکستان اُن ہی کی شخصیت کے گرد گھومتی ہے۔
ڈاکٹر ایوب گورایا، کالم نگاروں کے ہر اول دستہ میں شامل ہیں۔ وہ کالم نگاروں میں ایک منفرد مقام رکھتے ہیں کہ درد کا صرف اظہار نہیں کرتے بلکہ دوا بھی تجویز کرتے ہیں۔ ان کی کتاب ”ہم غریب کیوں؟“ میں انہوں نے ملک کو درپیش مسائل پر قلم اُٹھایا ہے۔ چند کالم وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کے اچھے کاموں کے بارے میں ہیں لیکن ان میں حقائق کا ذکر ہے۔ صرف حکمرانوں کی تعریف نہیں کی گئی بلکہ ان مسائل کا ذکر ہے جن کی وجہ سے ملک و قوم غربت و افلاس سے دوچار ہے۔
زیرنظر کتاب خالد محمود رسول کے کالموں کا انتخاب ہے۔ قارئین کی سہولت اور مستقل تصنیف کی رعایت سے موضوعات کو چھے حصوں میں ترتیب دیا گیا ہے۔ پہلا حصہ خالصتاً پولیٹیکل اکانومی پر مشتمل ہے۔ دوسرا حصہ مضامینِ معیشت اور تیسرا حصہ مضامینِ سیاست پر مبنی ہے۔
غیر مقدس جنگیں: جان کے کولی کی مشہورِ زمانہ تصنیف “ان ہولی وارز” کا اردو ترجمہ ہے۔ مشرق وسطیٰ اور دہشت گردی ،جان کے کولی کی تحریروں کے بنیادی موضوعات رہے ہیں۔’’غیرمقدس جنگیں‘‘ دنیا کے اس معروف صحافی اور محقق کی کتابوں میں سرفہرست ہے۔
جنرل ضیاالحق کی آمریت میں ایسے کالم نگاروں کے لیے ٹکٹکیاں سرِبازار سجا دی جاتی تھیں جو آئین اور جمہوریت کی بحالی کے لیے لکھتے تھے۔ گو اُس وقت بھی ایسے قلم کار موجود تھے جو سرکار کے دربار میں سرِتسلیم خم کرکے اپنا قلم اور حرف بیچنے میں فخر محسوس کرتے تھے۔ مگر ایسے چند ایک انگلیوں پر گنے چنے قلم کار بھی تھے جو جابر سلطان کی تلوار کو اپنے قلم سے للکارتے تھے
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کا تختہ الٹ کر ان کی گرفتاری اور پھانسی کے بعد اگر پیپلز پارٹی کے بہادر اور اخلاص کے پیکر کارکنان اپنے خاندانوں کے مستقبل اور اپنی جانیں داﺅ پر لگا کر جنرل ضیا الحق کے قائم کردہ فسطائی نظام کے آڑے نہ آتے تو پیپلز پارٹی دَم توڑ چکی ہوتی۔
زیرنظر کتاب انقلابی لیڈر چی گویرا کی یادداشتوں پر مشتمل ہے۔ چی گویرا،ارجنٹینا کے انقلابی لیڈر تھے۔ وہ 14 مئی 1928ء کو ارجنٹائن میں پیدا ہوئے۔ اپنی نوجوانی سے ہی وہ کتب بینی کے شوقین تھے، ان کے گھر میں تین ہزار سے زائد کتابوں پر مشتمل ذخیرہ تھا۔
فرخ سہیل گوئندی کی تحریروں کے موضوعات سماج، سیاسیات، عالمی سیاست اور تاریخ ہیں۔ وہ پاکستان کے ان لوگوں میں شمار ہوتے ہیں جنہوں نے تحریر و تقریر کے ذریعے اپنا ایک خاص مقام بنایا۔ ان کے قلم کا انداز جس قدردل پذیر ہے، اسی قدر ان کی تقریر کا انداز بھی پُراثر ہے۔ یہ اعزاز کم لوگوں کو ہی حاصل ہوتا ہے۔
End of content
End of content
Jumhoori Publications has emerged as a front-runner publisher in a short span of time, thanks largely to its independent and progressive posturing.
Typically replies within a day